سورة آل عِمرَان

توکل

پھر جب تو اس کام کا ارادہ کر چکا تو اللہ پر بھروسہ کر، بے شک اللہ توکل کرنے والے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ {سورہ آل عمران:159}

ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کا نام آئے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب اس کی آیتیں ان پر پڑھی جائیں تو ان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ {سورہ الانفال:2}

اور اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم ایمان دار ہو۔ {سورۃ المائدۃ:23}

اور اللہ پر بھروسہ کر اور اللہ ہی کارساز کافی ہے۔ {سورۃ الاحزاب:3}

اور ایمان والوں کا بھروسہ اللہ ہی پر ہونا چاہیے۔ {سورۃ ابراھیم:11}

یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:

(لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُونَ عَلَى اللهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرُزِقْتُمْ كَمَا يُرْزَقُ الطَّيْرُ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا.)(جامع الترمذي الزهد باب في التوكل علي الله حديث:2344وسنن ابن ماجه حديث:4164ومسند احمد:52و30/1 وصحيح ابن حبان حديث:2548والمستدرك علي الصحين للحاكم :318/4)

’’عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم لوگ اللہ پر توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا اور امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔

سورة آل عِمرَان

نیک لوگ

الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ ۔۔ : ان آیات میں اہل جنت کی صفات کا ذکر ہے، چناچہ ان کی پہلی صفت یہ ہے کہ خوش حالی اور تنگ دستی ہر حالت میں وہ اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں اور نیک کاموں اور رضائے الٰہی کے لیے مال صرف کرنے سے انھیں کوئی چیز غافل نہیں کرتی۔ چناچہ آپ نے کئی مواقع پر غریب مسلمانوں کو صدقہ کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ (اتقوا النار ولو بشق تمرۃ) (بخاری، کتاب الادب، باب طیب الکلام۔۔ ) یعنی دوزخ کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ دے کر بچو اور اس ترغیب سے مقصود بخل اور حرص جیسی مہلک بیماریوں کا علاج ہے۔ [١٢٠] وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظ۔۔ : ان کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ غصہ سے مغلوب ہونے کے بجائے اس پر قابو پالیتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پہلوان وہ نہیں جو پچھاڑ دینے والا ہو، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔ “ [ بخاری، الأدب، باب الحذر من الغضب : ٦١١٤، عن أبی ہریرۃ (رض) ] ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی : ” مجھے وصیت فرمائیے۔ “ آپ نے فرمایا : ( لاَ تَغْضَبْ ) ” غصہ مت کر۔ “ اس نے کئی دفعہ درخواست دہرائی، آپ نے یہی فرمایا : ( لاَ تَغْضَبْ ) ” غصہ مت کر۔ “ [ بخاری، الأدب، باب الحذر من الغضب : ٦١١٦۔ ترمذی : ٠٢٠ ] ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ اجر والا گھونٹ، غصے کا گھونٹ ہے، جو آدمی اللہ کے چہرے کی طلب میں پی لیتا ہے۔ “ [ احمد : ٢؍١٢٨، ح : ٦١١٩۔ ابن ماجہ، الزھد، باب الزھد : ٤١٨٩ ] 3 َ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ۭ : یہ دراصل غصہ پی جانے کا لازمی تقاضا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تین چیزوں پر میں قسم کھاتا ہوں، صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ معاف کردینے سے بندے کی عزت میں اضافہ ہی کرتا ہے اور جو اللہ کے لیے نیچا ہوتا ہے اللہ اسے اونچا کردیتا ہے۔ “ [ مسلم، البر والصلۃ، باب استحباب العفو : ٢٥٨٨۔ عن أبی ہریرۃ (رض) ] اور یہ احسان کا مقام ہے اور اللہ محسنین سے محبت رکھتا ہے۔ {سورہ آل عمران:134}

سورة آل عِمرَان

سود نہ کھائو 

سود خوری آدمی میں لالچ پیدا کرتی ہے۔ حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے سود کو چھوڑ دو تاکہ تم اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکو اور اس آگ سے ڈرو جو اللہ کے حکم کا انکار کرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ بغاوت اور انکار کی روش اختیار کرنے کی بجائے ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی شفقت و مہربانی نازل کرتا رہے۔ دنیا کے مال کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی بخشش اور جنت کے حصول کے لیے جلدی کرو۔ دنیا کا مال عارضی ، اس کی سہولتیں ناپائیدار ‘ یہاں کے بنگلے اور محلاّت مسمار اور دنیا کے باغ و بہار ویرانوں میں تبدیل ہونے والے ہیں جبکہ جنت کے باغات سدا بہار اور اس کی نعمتیں لا محدود اور ہمیشہ رہنے والی ہیں جو اللہ سے ڈرنے اور گناہوں سے بچنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو صرف نیکی کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ نیکیوں میں آگے بڑھنے اور جنت کی طرف سبقت لے جانے کا حکم دیا ہے۔ جس معاشرے میں نیکی اور اہم مقصد کے لیے آگے بڑھنے کا جذبہ ختم ہوجائے وہ معاشرہ اور قوم بالآخر مردگی کا شکار ہوجایا کرتی ہے۔ زندہ اور بیدار قومیں اپنی منزل کے حصول کے لیے نئے جذبوں اور تازہ ولولوں کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے مسلسل منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ مسلمانوں کی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا حصول ہے اس لیے قرآن مجید نے مختلف مقامات پر ترغیب دی ہے کہ اس مقصد کے لیے آگے بڑھو اور بڑھتے ہی چلے جاؤ۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃً یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فِيْ ظِلِّھَا ماءَۃَ سَنَۃٍ وَاقْرَأُوْا إِنْ شِءْتُمْ (وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ گھوڑے پر سوار شخص اس کے سائے میں سو سال تک چل سکتا ہے۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو ( اور سائے ہیں لمبے لمبے) ۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ (رض) عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب فی صفۃ خیام الجنۃ …..] ” حضرت عبداللہ بن قیس اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے پاس وہی جائے گا دوسرا کوئی کسی کو نہ دیکھ سکے گا۔ “

مسائل

١۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے سود خوری چھوڑ دینا چاہیے۔
٢۔ اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔
٣۔ اللہ کے نافرمان اور سود خوروں کے لیے جہنم کی آگ تیار کی گئی ہے۔
٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی شفقت و مہربانی ہوتی ہے۔
٥۔ اللہ کی بخشش اور اس کی جنت کے لیے جلدی کرنی چاہیے۔

تفسیر بالقرآن اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فائدے :
١۔ اللہ کی شفقت و مہربانی حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران : ١٣٢)
٢۔ اللہ کی محبت اور بخشش حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران : ٣١)
٣۔ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعمال ضائع ہونے سے محفوظ ہوتے ہیں۔ (محمد : ٣٣)
٤۔ دنیا وآخرت کی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ (الاحزاب : ٧١)
٥۔ قیامت کے دن انبیاء، صدیقوں، شہداء اور صلحاء کا ساتھ نصیب ہوگا۔ (النساء : ٦٩)
{سورہ آل عمران:130}